محترم قارئین آپ شاید آگاہ ہوں کہ میری تکنیکی صلاحیتیں کبھی بھی قابل رشک نہیں رہیں بلب فیوز ہوجائے تو اسے بدل نہیں سکتا بجلی والے کو بلاتا ہوں فیکس مشین کا کوئی غلط بٹن دب جائے اور وہ ٹوں ٹوں کرتی غل مچانے لگتی ہے تو اپنے کرنل بھائی کی مدد طلب کرتا ہوں کار کے میوزک سسٹم میں کوئی ڈی وی ڈی ڈالنی ہو تو اپنی بھتیجی ٹینا کی منت سماجت کرتا ہوں یہاں تک کہ سیل فون کی گھنٹی بجے تو میرا کمال فن صرف آن کرنے کا بٹن دبانے تک محدود رہتا ہے نہ اس میں فون نمبر ڈال سکتا ہوں نہ ہی کوئی گیم وغیرہ کھیلنے کا طریقہ آتا ہے تو اس شاندار تکنیکی مہارت کے پیش منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی کو میں نے آج تک کوئی ایس ایم ایس نہیں بھیجا کہ مجھے بھیجنا ہی نہیں آتا تو امید ہے آپ یقین کرلیں گے اب تو میں اپنے موبائل کا آن بٹن دبانے سے بھی گھبراتا ہوں تاکہ کوئی اور بٹن نہ دب جائے اور غلطی سے کوئی ایس ایم ایس نہ چلا جائے ورنہ میں تو مفت میں مارا جاؤں گا اور اس گھبراہٹ کا سبب حکومت کی جانب سے نازیبا ایس ایم ایس بھیجنے پر پابندی کا اعلان ہے جس کے ساتھ صرف چودہ برس کی قید کی بھی نوید خاص ہے ہمیں بتایا گیا ہے کہ ان دنوں کچھ نازیبا پیغامات سیل فونوں کے ذریعے بھجوائے جارہے ہیں جن کا ہدف صدر پاکستان، وزیراعظم پاکستان ، رحمان ملک اور پاکستانی فوج ہیں۔
یہ درست کہ مجھ میں ایس ایم ایس روانہ کرنے کی تکنیکی صلاحیت مفقود ہے۔لیکن بدقسمتی سے میں اپنے موبائل کو ایس ایم ایس قبول کرنے سے روک نہیں سکتا چنانچہ پانچ سات پیغامات آہی جاتے ہیں جنہیں پڑھنا پڑتا ہے ان میں سے کچھ ایسے حضرات ہیں جنہوں نے دین کی خدمت کا تہیہ کررکھا ہے اور وہ دن رات آپ کو جہنم کے عذاب سے ڈراتے رہتے ہیں اور ساتھ میں یہ وارننگ بھی ہوتی ہے کہ آپ فوری طور پر یہی ایس ایم ایس کم ازکم ایک درجن دوستوں کو فارورڈ کردیں ورنہ روز حشر جوابدہ ہوںگے مجھے یقینا روز حشر جوابدہ ہونا پڑے گا کہ میں ان بصیرت آموز پیغامات کو فارورڈ کرنے سے قاصر ہوتا ہوں پھر لطیفوں کے شوقین حضرات آپ کو سردرد لطیفے بھیجتے رہتے ہیں کچھ لوگ کوئی اچھا شعر پڑھ لیں تو آپ کو فاروڈ کردیتے ہیں اور پھر وہ کیٹیگری ہوتی ہے جو سیاسی مزاج پر مبنی ہوتی ہے جس پر کہ قدغن لگائی گئی ہے میں نے آج تک کوئی ایک ایس ایم ایس ایسانہیں پڑھا جس میں فوج کا مذاق اڑایا گیا ہو مجھے شک ہے کہ فوج کا اس پابندی کے دفاع کے لیے تڑکے کے لیے استعمال کیا گیا ہے جبکہ وزیراعظم کے بارے میں بھی کم ہی کومنٹ موصول ہوئے ہیں تو باقی رہ گئے صدر صاحب اور وزیر داخلہ تو میں اقرار کرتا ہوں کہ ان کے بارے میں لوگ بے پر کی اڑاتے رہتے ہیں۔
میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ یہ پابندی اور چودہ برس قید کا اعلان ایسا نہیں جسے دانش مندانہ قرار دیا جاسکے کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ خفیہ محکمے کروڑوں سیل فونوں کی نگرانی کریںگے یعنی جاسوسی کا ایک ایسا نیٹ ورک تخلیق کیا جائے گا جس کے ذریعے پاکستان کے تقریباً ہر فرد پر کڑی نگاہ رکھی جائے گی اور اس کے سیل فون کو مسلسل سنا جائے گا جیسا کہ کمیونسٹ نظام میں ہوا کرتا تھا یا کسی آمرانہ نظام میں سنسر شپ ہوتی ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ تکنیکی طور پر ممکن ہی نہیں اگر ممکن ہے تو یہ فیصلہ کون کرے گا کہ فلاں ایس ایم ایس معصوم ہے اور فلاں نے ایک جرم کا ارتکاب کیا ہے وزیر داخلہ کو کم ازکم دو چار ایسے ایس ایم ایس کے حوالے دینے چائیے تھے جو ان کے نزدیک قابل تعزیر ٹھہرتے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ صدر آصف علی زرداری کو پاکستان کی نمائندہ سیاسی پارٹیوں نے اکثریت سے منتخب کیا ہے اور وہ نہ تو آمر ہیں اور نہ ہی چور دروازے سے ایوان صدر میں داخل ہوئے ہیں وہ ایک عوامی جمہوری اور آئینی صدر ہیں ظاہر ہے ان کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرنا ایک گری ہوئی حرکت ہے جس کا سختی سے نوٹس تو لینا چاہیے لیکن سیاسی اختلاف اور شخصی طنز کو بھی برداشت کرلینے میں کچھ مضائقہ نہیں یہ کوئی نیا وقوعہ نہیں ماضی کے حکمرانوں کے بارے میں بھی شوشے چھوڑے جاتے تھے لطیفے گھڑے جاتے تھے اور طنز یہ شاعری کی جاتی تھی حبیب جالب نے بھی تو ایوب خان کے بارے میں کہا تھا کہ
مرادیں وہ بیٹوں کی برلانے والا
وہ اپنے پرائے کو کھا جانے والا
اتر کر ہزارے سے پنڈی کو آیا
اور اک نسخہ ء بی ڈی آں ساتھ لایا
( یعنی بی ڈی نظام)پاکستان کی تاریخ میں سب سے پسندیدہ ترین وزیراعظم بھٹو پر بھی پھبتیاں کسی گئیں اور استاد دامن نے وہ شعر کہے کہ
کی کری جاناں ایں۔ کی کری جاناں ایں۔
وکھائی کھیس تے کھچی دری جاناں ایں۔
اور جب ضیاء الحق کا آسیب آیا تو اس کے بارے میں کیسے کیسے لطیفے سامنے آئے کہ کیا میری آنکھیں ہیما مالینی سے ملتی ہیں وغیرہ اور جالب نے کہا کہ ظلمت کو ضیاء کیا کہنا ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا آپ جانتے ہیں کہ ٹونی بلیئر کو بش کا پوڈل کہا گیا تھا تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ پوڈل کتوں پر پابندی لگا دی جائے یا بش کی جانب جوتا پھینکا گیا تو جوتے پہننے پر پابندی عائد کردی جائے یہ عوامی چھیڑ چھاڑ اور لطیفے بازی تو چلتی رہتی ہے اور اپنے اظہار کے لیے کوئی نہ کوئی راہ نکال لیتی ہے ابھی کل صبح جب میں مارکیٹ میں سبزی وغیرہ خریدنے کے لیے گیا تو وہاں ایک صا حب نے بتایا کہ انہیں ایک ایس ایم ایس آیا ہے جس میںا یک سیاسی شخصیت کی مبالغہ آمیزتعریف کی گئی ہے اور آخر میں لکھا ہے کہ کیوں جی یہ ٹھیک ہے؟
تو میں بھی آپ سے یہی پوچھوں گا کہ کیوں جی یہ ٹھیک ہے؟
ہفتہ جولائی 18, 2009
Subscribe to:
Posts (Atom)